ڈراؤنا ناول ہاؤس فور سیل ۔۔



ناول
 ہاؤس فور سیل ۔۔۔۔
ڈراؤنا ناول
رات کی ہولناک تاریکی اور  باہر سے آتے کتوں کی آوازیں گہری رات کا منظر پیش کر رہی تھی ۔   ٹھٹھرتی سرد اور سیاہ رات کا دوسرا پہر،  جب دنیا اپنے اپنے نرم گرم بستر پر نیند کے مزے لے رہی تھی ۔عین اس وقت دینو چاچا کے موبائل پر مسلسل بجتی ہوئی گھنٹی ۔نیند سے بیدار ہو کر چاچا نے  ہڑبڑا کر فون رسیو کیا۔۔۔۔۔ بوکھلائی ہوئی آواز سے بولا ۔
ہے۔۔۔ ہیلو ۔۔کو کون ۔ 
چا چا میں ہوں رب نواز ، معاف کرنا چاچا بے وقت فون کیا ۔ابھی ابھی میری ابا سے فون پر  بات ہو رہی تھی کہ اچانک بات کرتے کرتے وه خاموش ہو گئے ۔جبکہ مجھے انکی تیز تیز چلتی سانسوں کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔ خدا خیر کرے چاچا مجھے تشویش ہونے لگی ۔اگر تکلیف نہ سمجھیں تو  میری مدد کریں ۔ میرے گھر جا کر دیکھ آئیں ابا خریت سے ہیں نا ۔ 
ہاں ۔۔۔ہاں کیوں نہیں بیٹا میں جاتا ہوں دیکھ آتا ہوں پھر فون پر بتا دونگا ۔
چاچا ایک اور بات ، ایک ایمرجنسی چابی میں نے دروازے کے ساتھ بڑے گملے کے تنے کے پاس چھپا کر رکھی ہوئی ہے ، آپ دروازہ خود ہی کھول کر اندر جا سکتے ہیں ۔ میں اپکی کال کا انتظار کروں گا ۔ 
ٹھیک ہے میں ابھی جاتا ہوں ۔ 
دینو چاچا نے وقت دیکھا رات کے دو بجکر تیرہ منٹ بج رہے تھے ۔ چاچا نے اپنی گرم شال اپنے کندھوں پر لپیٹی ، موبائل کی روشنی میں رب نواز کے گھر  کی جانب چل دیے  ۔
 راستے میں کوئی سٹریٹ لائٹ روشن نہیں تھی ۔ چاچا چلتے ہوئے اونچی آواز میں اللّه اکبر کا ورد کرنے لگے ۔ 
 چند قدم چلنے کے بعد ہی چاچا کو  یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے انہیں زوردار دھکا دیا ، اور  وه دھڑام زمین پر گر گئے موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا ۔اس سے ملنے والی مدہم سی روشنی بھی آنا بند ہو گئی ۔ چاچا نے گھپ اندھیرے میں چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی اور ایک ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر موبائل تلاش کیا ۔ دوبارہ اسکی لائٹ آن کی سب طرف دیکھا یہاں آس پاس میں کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔ 
چاچا اسے اپنا وہم سمجھ کر اٹھے اور تیز آواز میں اللّه اکبر پڑھتے ہوۓ  رب نواز کے گھر کی جانب چل پڑے  ۔انہوں نے دروازے کے پاس گملے سے چابی نکالی اور دروازہ کھولنے ہی والے تھے کہ دروازہ خود بخود اندر سے ہی کھل گیا ۔
 ہوا کے  تیز جھونکے کے ساتھ چاچا گھر میں داخل  ہوئے ۔ گھر میں چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا ۔ 
چاچا نے پھر سے موبائل کی ٹارچ آن کی اور دیوار پر لگے ہوئے  سوئچ بورڈ کو ڈھونڈنے لگے ، کہ اچانک لائٹ  خود بخود آن ہو گئی ۔۔ 
آؤ آؤ دینو میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا ۔ ابا اپنی مسہری پر پیر لٹکائے بیٹھے ہوئے تھے ۔ 
اوہ صاحب آپ خیریت سے ہیں اللّه کا شکر ۔
ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں دینو ۔ تم کہاں چلے گئے تھے ، آج بڑے عرصے بعد نظر آئے ہو  ۔ 
بس صاحب  ۔۔۔!!! محکمہ جنگلات میں ملازم تھا  ، اب اس عمر میں جا کر ریٹائر ہوا  ، سوچا باقی کے دن اپنے پرانے محلے میں جا کر گزاروں گا ۔ اور آج ہی واپس آیا ہوں ۔ میری ابھی تک اہل محلہ سے ملاقات نہیں ہو سکی ۔ 
 ویسے  میں حیران ہوں  ،  رب نواز صاحب کو  کیسے معلوم ہوا کہ میں  واپس آ گیا ۔۔۔  اچانک دینو چاچا کے ذہن میں سوال ابھرا ۔ 
میں نے محسوس کر لیا تھا کہ تم واپس آ چکے ہو ،  اور میں نے ہی باتوں باتوں میں اسے بتایا ۔ 
        اچھا کیا تم چلے آئے ۔ مجھے  تمہاری بڑی ضرورت تھی ۔ 
میں کافی دیر سے پیاسا ہوں کچھ پلا دو ۔۔۔ابا نے عجیب انداز میں کہا ۔
 میں پہلے رب نواز صاحب کو اپکی خیریت کی  اطلاع دے دوں ۔ چاچا نے کہا ۔۔ 
نہیں نہیں رہنے دو  ، میری ابھی اس سے بات ہوئی ۔ اسی نے بتایا تھا  کہ تم یہی آ رہے ہو ۔ 
بس موبائل کی بیٹری ختم ہو گئی تھی  جسکی وجہ سے میری بات  ادھوری رہ گئی  ۔ چارجر بھی نجانے کہاں رکھ بیٹھا ہوں  ۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تم اپنا موبائل مجھے دے جاؤ، صبح واپس لے لینا ۔
جی کیوں نہیں صاحب یہ اپ رکھ لیں میں صبح حاضر ہو
 جاؤں گا ۔ ناشتہ پانی بھی لیتا آؤں گا ۔ 
ٹھیک ہے اب تم جاؤ اور آرام کرو ۔
اور یہ چابی یہیں رکھ دو میں جاگ رہا ہوں ۔رب نواز آئے گا تو میں خود دروازہ کھول دونگا ۔  
   دینو چاچا نے چابی میز پر رکھی اور دروازہ بند کرکے اپنے گھر کی طرف چل پڑے ۔ 

دینو چاچا کے واپس آنے تک نماز فجر کا وقت ہونے کو تھا ۔ چاچا نے سونا مناسب نہیں سمجھا ۔اذان کو کچھ ہی دیر باقی تھی ۔ چاچا  چولہے پر پانی گرم رکھنے کی نیت سے کچن گئے ، دروازے پر ہی ٹھٹھک گئے ۔ایک انتہائی خوبصورت بچہ سخت سردی میں ننگا صرف ایک  لنگوٹ پہنے ہوئے چولہے کے پاس کھیل رہا تھا ۔ دینو چاچا گھبراہٹ سے دوڑے کہ بچے کو گرم کپڑے میں لپیٹ سکیں ۔۔۔۔
چاچا کی حیرت کی انتہا ہو گئی دیکھ کر کہ بچہ چاچا کو دیکھتے ہی کھلکھلا کر ہنسا آور دیوار سے آر پار ہو گیا ۔۔۔۔دینو چاچا بھاگ کر اسے پکڑنا چاہ رہے تھے اور سیدھے اس دیوار سے جا  ٹکراۓ جہاں سے بچہ دیوار سے پار ہوا ۔ اک دھیمی سی مسکراہٹ چاچا کے لبوں پر آ کر غائب ہو گئی ۔ 
ہمم تو میری غیر موجودگی میں یہ مخلوق یہاں آن بسی ۔۔۔۔دینو چاچا نے سوچا ۔۔۔
     چاچا کئی زمانوں بعد گھر واپس آئے تھے ، سوچا تھوڑا بہت گھر کاحلیہ بہتر کر دیں ۔ اب باقی ماندہ زندگی یہیں تو گزارنی تھی ۔ 
نماز فجر سے فارغ ہو کر دینو چاچا نے ناشتہ بنایا آدھا ناشتہ کچن میں چولہے کے پاس رکھ دیا خود ناشتہ کر کے گھر کی صفائی میں مشغول ہو گئے ۔ کام  نبٹانے کے بعد چاچا کچن میں آئے انہوں نے دیکھا ناشتہ چولہے کے پاس موجود نہیں تھا ۔۔چاچا گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ 
کیا مجھے کرائے کیلئے کوئی اچھا سا گھر اسی  علاقے میں مل سکتا ہے۔۔۔؟؟؟؟
احسن صاحب نے اس علاقے کے پراپرٹی ڈیلر سے فون پر  بات کرتے ہوئے  پوچھا۔۔۔
لیکن اسی علاقے میں ہی کیوں ۔ میں آپکو اس سے اچھی جگہ پر ڈھونڈھ دونگا ۔ پراپرٹی ڈیلر نے کہا ۔۔
 اصّل میں  میرا آفس بالکل پاس میں ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ گھر بھی قریب ہو تاکہ میں دن میں ایک مرتبہ گھر کا چکر لگا سکوں ۔۔احسن صاحب نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ۔۔
۔  ۔ 
آ آ آ ۔۔۔۔۔۔۔ہے تو سہی ،  پر ۔۔۔۔۔۔ڈیلر نے کچھ سوچتے ہوۓ بات ادھوری چھوڑ دی  ۔۔۔۔
چلیں آپ آ جائیں میں وزٹ کروا دیتا ہوں ۔۔
احسن صاحب  فیملی لیکر پراپرٹی کے دفتر پہنچ گئے ۔۔ ڈیلر انہیں قریب ہی واقع ایک گھر میں لے آیا ۔ جہاں دروازے پر بڑا بڑا لکھا تھا ۔ ہاؤس فور سیل ۔ 
لیکن یہ تو فور سیل ہے احسن صاحب نے ڈیلر سے  پوچھا ۔۔۔ 
  جی جی آپ اسکی ٹینشن مت لیں ۔ یہ پچھلے کئی سالوں سے سیل پر لگا ہے ۔ لیکن ابھی تک اسکا کوئی خریدار نہیں آیا ۔ سوچا کرائے پر چڑھا دیتے ہیں ۔ ڈیلر نے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔
لیکن اگر کوئی خریدار آ گیا تو ہمیں گھر خالی کرنا پڑ جائے گا ۔۔ 
احسن صاحب نے تشویش ظاہر کی ۔۔
احسن صاحب ،  جو گھر خریدے   گا اس سے ہم آپکو وقت لیکر دیں گے ۔ اور جو ڈیل ہم کریں گے اس پر ثابت قدم رہیں گے ۔ ڈیلر کسی بھی طرح سے اس گھر کو کرائے پر لگانے کے چکر میں تھا ۔۔۔
احسن صاحب اور انکی  فیملی نے پورے گھر کا جائزہ لیا ۔ گھر معمول سے زیادہ صاف ستھرا تھا ۔۔ نہ ہی پینٹ خراب تھا نہ ہی کسی جگہ پر مٹی کی دھول تھی ۔۔ 
ارے اتنے سالوں سے بند پڑا گھر ہے لیکن صاف اتنا ہے جیسے ابھی ابھی کسی نے صاف کیا ہو ۔۔ احسن صاحب کی بیگم نے  حیرانی سے کہا ۔۔ 
ہاں ۔۔ہاں  وه دراصل ۔۔۔۔ہم وقتا فوقتا اسے صاف کرواتے رہتے ہیں ۔ ڈیلر نے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے کہا ۔
گھر کا دورہ کرنے کے دوران  احسن صاحب نے ایک کمرے کو کھول کر دیکھنا چاہا مگر دروازہ مکمل طور پر بند تھا ۔۔ 
اسے  بھی کھول کر دیکھا دیں ۔ بیگم احسن نے ڈیلر سے کہا ۔۔۔
جی ۔۔۔وه۔ ۔۔دراصل اس کمرے میں مالک کا چند سامان پڑا ہے اور اسکے علاوہ آپکو پورا گھر مل جائے گا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے ہمیں گھر پسند آیا ۔ احسن صاحب نے ڈیلر کی بات کو اگنور کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔  ہم اگلے ہفتے ہی یہاں شفٹ ہو جائیں گے ۔ ڈیلر نے احسن صاحب کو شام آفس انے کا کہہ دیا ۔ تاکہ معاملات طے کئے جا سکیں ۔۔
 احسن صاحب کو گھر وزٹ کروانے کے بعد ڈیلر نے گھر کے دروازے کھڑکیاں بند  کئے ۔ ابھی باہر  نکلنے ہی کو تھا کہ دینو چاچا گھر میں داخل ہوئے ۔۔۔ ارے یہ باہر اتنا بڑا بورڈ کس نے لگا دیا ہاؤس فور سیل کا ۔ 
یہ تو رفاقت صاحب نے بڑے ارمانوں سے بنایا تھا ۔ میں پوچھتا ہوں ان سے ۔۔ 
دینو چاچا یہ کہہ کر اندر جانے کو تھے کہ ڈیلر نے پوچھا ۔۔۔ 
کن سے پوچھیں گے جناب ۔۔۔رفاقت صاحب کو تو گزرے کئی برس  بیت چکے ۔۔۔
کیا مطلب ۔۔۔؟؟؟ دینو چاچا نے قدرے  چیختے ہوئے پوچھا ۔۔۔ 
مطلب یہ کہ رفاقت صاحب اور انکے بیٹے رب نواز کی موت کو کئی سال بیت چکے ۔۔ اب یہ گھر انکے بھتیجے کا ہے اور اسے کرائے پر دینے جا رہے ہیں ۔
دینو چاچا کی آنکھیں حیرت کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئی ۔ 
ارے بابا کل رات میری بات ہوئی رفاقت صاحب سے ، بلکہ میرا موبائل ۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک دینو چاچا اندر کی جانب لپکے اور مسہری پر سے اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ 
یہ دیکھو ۔۔۔میرا موبائل ۔۔۔یہ کل رفاقت صاحب نے مجھ سے مانگا تھا اور میں انھیں دے گیا تھا ۔۔ 
اور تو اور میری رب نواز سے بھی بات ہوئی ۔۔۔۔ڈیلر نے گہری تشویش سے دینو چچا کی طرف دیکھا اور گھر دوبارہ لاک کیا اور واپس چلا گیا ۔ دینو چچا کی  نظریں دور تک ڈیلر کو تکتی رہیں ۔ ایسا کیونکر ممکن ہے کہ رفاقت صاحب اور رب نواز  گزر گئے ۔ جبکہ کل رات میری دونوں سے بات چیت ہوئی ۔۔
دینو چچا گیٹ پر لگے تالے کو دیکھ کر گہری سوچ میں پڑ گئے کہ اچانک دینو چچا کو گھر کے اندر سے تیز تیز قدموں کی آواز سنائی دینے لگی۔ 
دینو چاچا کافی دیر تک ان قدموں کو سننے کی کوشش کرتے رہے ۔جو اچانک گیٹ کے پاس آ کر رک گے  تھے  ۔۔ چاچا  لاک کے سوراخ سے اندر جھانکنے کو ہی تھے کہ انہیں اپنے کندھے پر بھاری ہاتھ محسوس ہوا اور وه تیزی سے مڑ کر سیدھے  کھڑے ہو گئے ۔ 
ایک خوبرو نوجوان نے مسکراتے ہوئے انہیں سلام پیش کیا ۔ 
السلام علیکم ۔ میں زیشان ہوں ۔ رفاقت صاحب میرے تایا ابو تھے ۔ 
اوہ تو آپ انکے بھتیجے ہیں ۔  
جی ہاں ۔۔ زیشان نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔
یار ایک بات سمجھ میں نہیں آ رہی ۔رفاقت صاحب سے کل میری فون پر بات ہوئی ۔مجھ سے موبائل فون مانگا ۔ رب نواز سے بھی بات ہوئی اور ابھی یہ سننے کو ملا کہ دونوں کی موت کو بھی عرصہ بیت گیا ۔ ایسے کیسے ممکن ہے ۔ 
زیشان کے چہرے پر کئی رنگ آئے گزر گئے ۔ اسکے چہرے کی زردی کو دینو چچا نے صاف محسوس کیا اور بولے ۔۔۔
بیٹا میری الجھن دور کرو ۔مجھے بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے ۔ 
چچا میں خود آج تک بلکہ کوئی بھی اس معمہ کو حل نہیں کر سکا ۔سالوں پہلے اس ہنستے بستے گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ۔ پھر تایا جی نے گھر کو دوبارہ سے ٹھیک کروایا ۔گھر کی شان ہی بدل گئی ۔ میری بڑی بہن کی شادی رب نواز بھائی سے ہوئی ۔ہم سبھی بہت خوش تھے ۔ کہ پھر ایک دن تایا جی اور بھائی رب نواز کی خون میں لت پت  لاشیں  صحن میں پائی گئیں اور میری آپی لاپتہ ہو گئیں ۔  ہم فورا  رپورٹ درج کرانے کی طرف بھاگے اسی دوران  اچانک سے دونوں کی لاشیں بھی  غائب ہو گئیں اور صحن ایسے صاف ستھرا ہو گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔
دینو چاچا بڑے غور سے زیشان کی باتیں سنتے رہے ۔ ساتھ ہی وه گھر کے اندر مسلسل قدموں کی چاپ پر بھی غور کرتے رہے ۔ 
کیا تمہارے پاس اس گھر کی چابی ہے ۔ 
جی ہاں میں اس سلسلے میں ہی اپ سے بات کرنے آیا ہوں ۔۔ 
گھر کے اندر سے غیر معمولی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ محلے والے سب ہی پریشان ہیں ۔ انکا کہنا  ہے کہ،  خالی گھر آسیب کا مسکن بن جاتے ہیں لہٰذا اسے آباد کریں ۔ کسی فیملی کو کرایہ پر دیں یا بیچ دیں تاکہ یہ آباد ہو ۔۔  
تو چاچا پلیز اس گھر کو آباد کرنے میں ہماری مدد کیجئے ۔ کیوں کہ یہ گھر بک بھی نہیں رہا ۔ 
دینو چاچا گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ 
اچھا تم مجھے اس گھر کی چابی دے سکتے ہو مجھے اندر جانا ہے ۔
چاچا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔۔۔ 
جی جی کیوں نہیں ۔ زیشان نے چابی چاچا کو تھماتے ہوے  کہا ۔۔۔
کیا میں بھی آپکے ساتھ اندر جا سکتا ہوں ۔۔ 
ہاں چلو ۔۔۔ چاچا نے کہا ۔۔ 
چابی کو گھماتے ہی دروازہ قدرے سختی سے کھلا جیسے دروازے کے پیچھے کوئی کھڑا انکو سن رہا ہو ۔۔۔چچا اور زیشان دونوں ٹھٹھک گئے ۔ کافی غور کرنے پر لگا جیسے کوئی انکے قریب سے گزر گیا ۔۔۔۔۔ 
یار ہم زیادتی نہیں کر رہے  اس فیملی کے ساتھ جو اس گھر میں رہنے کو آ رہی ہے ۔۔ کیوں کہ میں نے کچھ محسوس کیا ہے ۔۔
میں بھی یہی سوچ رہا تھا لیکن ڈیلر نے بہت حوصلہ دیا کہ یہ فیملی بہت بہادر ہے ۔یہ ایسے واقعیات پر یقین نہیں رکھتے ۔۔
زیشان نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا ۔۔۔
اوہ۔۔۔۔ پھر بھی مجھے انکا خیال رکھنا پڑے گا ۔چلو اللّه کا نام لیکر اسے کرائے پر چڑھا ہی دیتے ہیں ۔۔۔۔چاچا نے ذیشان کا ساتھ دیا ۔۔۔ 

 .   بدھ کی صبح احسن صاحب کو گھر کی چابی مہیا کر دی گئی ۔ وه اگلے ہی دن   اپنی فیملی کے ساتھ اس گھر میں شفٹ ہو گئے ۔ انہوں نے  آتے ہی سب سے پہلے گیٹ پر نیم پلیٹ لگائی ۔۔ 
Ehsan kmal 
House 45
دو چار دن میں ہی احسن صاحب نے پورا گھر سٹ کردیا ۔ اور زندگی رواں دواں ہونے لگی ۔۔۔۔۔

       چاند کی پہلی تھی ۔رات کافی اندھیری  تھی ۔ چاروں جانب گہرا سناٹا ، چھایا تھا ۔۔ دینو چاچا کی  بے چینی انہیں سونے نہیں دے رہی تھی ۔۔ رہ رہ کر رب نواز کی یاد ستا رہی تھی ۔ رفاقت صاحب کے ساتھ بیتے دن یاد انے لگے ۔۔۔ 
چاچا  پچھلی  باتیں یاد کرتے ہوئے جانے کب سو گئے ۔
    " دینو چاچا آپ کو ایک  کام بولا تھا کہ بابا کی خبر لا دیں وه کیسے ہیں ۔۔۔۔ آپ نے جواب ہی نہیں دیا ۔یہ کہہ کر رب نواز رونے لگ گیا ۔۔۔" 
 چاچا اچانک ہڑبڑا اٹھے ۔ نہیں نہیں بیٹا رو مت میں خبر لاؤں گا ۔ 
اوہ یہ تو خواب تھا ۔۔ 
چاچا نے محسوس کیا وه کوئی خواب دیکھ رہے تھے ۔ 
خواب ایسا تھا کہ چاچا کی نیند کوسوں دور بھاگ گئی ۔۔
چاچا کو کچن سے کچھ آوازیں سنائی دیں ۔ وه تیزی سے اٹھے کچن کو جانے ہی والے تھے کہہ   کھڑکی سے رب نواز کا گھر جگ مگ کرتا نظر آیا ۔۔۔ 
ارے یہ کیا ۔۔ ادھی رات کو کون سا فنگشن ہو رہا ہے  احسن صاحب کے ہاں ۔۔۔۔۔ چلو چل کر خبر تو لیں ۔
چاچا کو گہری تشویش ہوئی ۔رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں موبائل کی ٹارچ کی روشنی میں چلتے ہوئے رب نواز کے گھر تک پہنچے ۔۔ انہوں نے دروازے کے سوراخ سے اندر جھانکا ۔ اندر کا منظر کچھ عجیب سا تھا ۔۔ 
ہاہاہا احسن صاحب مبارک ہو آپ کو یہی  گھر چاہیے تھا نا ۔۔۔ اور آج آپ اس گھر کے مالک بن گئے ۔۔۔  تھوڑا دماغ لڑانا پڑا مگر کامیاب ہم ہو گئے ۔۔۔ ڈیلر اور احسن کے قہقہے چاچا کو حیرت میں ڈال گئے 
رات کے اس سناٹے میں ڈیلر اور احسن کی باتیں صاف سنائی دے رہی تھیں ۔۔ 
ابھی بھی دو مسلے باقی ہیں ۔ زیشان اور دینو ۔۔۔ 
جب تک یہ دونوں رابطے میں ہیں۔  بند کمرے کو آسیب زدہ ہی رہنے دیتے ہیں ۔ ویسے دونوں کو شک پورا ہو چکا یہاں آسیب ہیں ۔۔ ڈیلر نے احسن کو بتایا ۔۔۔
ڈیلر اور احسن کے قہقہے کی گونج  باہر تک سنائی گئی ۔۔۔ 
اوہ تو یہ بات ہے ۔ یہ ڈرامہ تھا ۔ گھر آسیب زدہ نہیں اور بند کمرے کا بھی ڈرامہ ہے ۔۔مگر یہ ڈرامہ کس کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے ۔۔۔
چاچا کو گہرا صدمہ پہنچا ۔دبے قدموں واپس مڑے موبائل کے روشنی آن کئے بغیر اندھیرے میں  ٹٹولتے گلی میں پہنچے اور کسی سے بری طرح ٹکرا کر گر گئے ۔۔ 
چاچا نے فورا سے موبائل کی روشنی آن کی ۔ سیاہ عبایا میں ملبوس لڑکی سہمی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ 
معاف کیجئے گا ۔۔۔
کون ہو بیٹی ۔۔۔چاچا  محبت بھرے انداز میں بولے ہی تھے کہ کہیں سے سیاہ بلی نے انکے  اوپر  چھلانگ لگا دی اور موبائل نیچے گر گیا ۔اس سے آنے والی روشنی بجھ گئی ۔ چاچا نے پھرتی سے موبائل ڈھونڈا دوبارہ سے روشنی جلائی ۔۔۔اس بیچ ہی لڑکی غائب ہو چکی تھی ۔۔۔ 
یا اللّه یہ کیا ماجرا ہے ۔ مجھے ہمت دے کہ معاملے کو سمجھ سکوں ۔ جو مظلوم ہے اس کی مدد کر سکوں ۔۔۔ 
گھر پہنچتے ہی چاچا کو محسوس ہوا کہ جیسے کچن میں کچھ پک رہا تھا ۔ خوش بو پورے گھر میں پھیل چکی تھی ۔۔
چاچا نے جھانک کر دیکھا ۔ کچن اپنی حالت میں ہی تھا ۔ کچھ بھی اگے پیچھے نہیں تھا ۔۔البتہ آج پھر وہی بچہ دیوار سے آر پار ہوتا دکھائی دیا ۔۔۔
ہممم رفاقت صاحب کے تو نہیں ، پر میرے گھر ضرور کوئی ہے ۔۔ چاچا مسکرائے ۔۔۔
زندگی کا لمبا عرصہ جنگلات میں گزارنے کے بعد چاچا کو ان غیر مریئ چیزوں کی پہچان خوب ہو چکی تھی ۔ انکی دوستی دشمنی کو بھی خوب سمجھتے تھے ۔ جبھی وه ہر وقت کچن میں  کھانے پینے کی چیزیں ، کچھ نہ کچھ ضرور رکھ دیا کرتے تھے ۔۔ 
بچہ انہی چیزوں کی خاطر ادھر چلا اتا  ۔ 
فجر کو ابھی کافی وقت تک ۔۔ چاچا گہری سوچوں میں گم ہو گئے ۔ اپنے دل میں ٹھان لی کہ راز کو ضرور فاش کریں گے ۔۔ ۔
       بڑے عرصے بعد سکوں کی نیند سویا ۔۔احسن نے بیگم سے کہا۔  
چلیں شکر ہے کہ ہمیں بھی اپنا ذاتی ٹھکانا نصیب ہوا ۔۔
اب  اڑوس پڑوس سے کبھی کبھار ملتی رہنا ۔ کوئی اگر بتانے کی کوشش کرے کہ یہاں آسیب ہیں  تو انہیں یہی یقین دلانا  کہ تم نے بھی محسوس کئے ۔۔۔   
اور ہاں بند کمرے کا تالا کبھی مت کھولنا ، چاہے کچھ بھی ہو ۔۔ ہم یہی ظاہر کریں گے اس کمرے میں مالکوں کا سامان ہے ۔۔ 
آخر کب تک ہم راز چھپائیں گے  ۔ کبھی نہ کبھی تو راز کھل جائے گا ۔ بیگم احسن نے کہا ۔۔۔ 
اچانک زور دار چیخ کی آواز سن کر بیگم احسن باہر بھاگتی نکل آئیں ۔۔احسن صاحب بھی گھبرا گئے ۔۔ کیا ہوا رمشہ ۔۔کیا ہوا ۔۔۔؟؟؟ 
بابا مجھے کسی نے دھکا دیا اور میں بری طرح سے نیچے گر گئی ۔۔۔
ایسا نہیں ہو سکتا بیٹا ۔۔۔یہ صرف ڈرامہ ہے کہ اس گھر میں آسیب ہیں ۔دراصل ایسا نہیں ہے تمہیں غلط فہمی ہوئی ہو گی ۔۔۔ احسن نے اپنی سولہ سالہ بیٹی کو سمجھاتےہوئے کہا ۔۔۔ 
رمشہ نے سر ہلا کر باپ کی  تائید کی ۔۔۔ 
 منگل کی شام احسن صاحب کو بزنس کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑا ۔۔جہاں انہیں دو دن قیام بھی کرنا تھا ۔۔موسم نہایت حسین تھا ۔ شدید گرمی کے بعد شام کو بادلوں نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ہلکی ہلکی ہوا کے ساتھ بوندا باندی بھی شروع ہو گئی ۔۔۔
ماما چلیں ٹیرس پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا مزہ لیتے ہیں ۔ رمشہ نے کہا ۔۔
ٹھیک ہے تم جاؤ میں کچھ کھانے کے لئے بنا کر لاتی ہوں ۔ پھر دیر تک باتیں کریں گے ۔ بیگم احسن یہ کہہ کر کچن میں گھس گئیں اور 
رمشہ بھاگتی سیڑھیاں پھلانکتی ٹیرس پر ا گئی ۔۔ ٹیرس سے  موسم اور بھی حسین دکھائی دے رہا تھا ۔ رمشہ ریلنگ کے ساتھ کھڑی نیچے پورچ اور گلی کا نظارہ  لے  رہی تھی کہ اچانک پیچھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ رمشہ نے سوچا ماما ہونگی ۔ اتنے میں ایک عورت جسکا آدھا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا ۔ وه تیزی سے اگے بڑھی رمشہ کو دیکھے بغیر ایک جیتا جاگتا بچہ ریلنگ سے نیچے پھینک دیا ۔ اور تیزی سے واپس سیڑھیوں کی جانب گم ہو گئی ۔ رمشہ نے نیچے پورچ میں خون  سے لت پت بچے کی لاش دیکھی اور چکرا کر ریلنگ سے نیچے گرنے کو تھی کہ کسی نے اسے بازو سے کھینچ لیا ۔
رمشہ کیا ہوا بیٹا ۔۔تم ریلنگ سے نیچے کیوں کود رہی تھی ۔ بیگم احسن نے  نیم بیہوش ہوتی رمشہ سے پوچھا ۔۔۔۔ 
ماما اس نے بچہ نیچے پھینک دیا ۔ رمشہ اتنا ہی کہہ پائی کہ پھر سے بیہوش ہو گئی ۔۔۔ 
رمشہ۔۔۔ کس نے بچہ پھینکا ۔۔یہاں تو کوئی بھی نہیں ۔۔میری بیٹی ہوش میں آؤ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔  بیگم احسن دیوانہ وار چیخ رہی تھیں ۔۔ گھر میں دونوں ماں بیٹی کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا ۔۔۔
 ابھی وه بیٹی کو ہوش میں لانے کی تدبیریں کر ہی رہی تھیں  کہ اچانک پیچھے کسی کے انے کی آہٹ سنائی دی ۔۔ بیگم احسن نے مڑ کر دیکھا اور گھبرا کر بولیں ۔۔۔۔ 
آپ ڈیلر  ہیں نا جنہوں نے یہ گھر دلایا۔   ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟  اور یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔؟؟؟؟  اندر کیسے آئے ۔۔۔ 
   ہاہاہا میں جب چاہوں جہاں چاہوں جا سکتا ہوں ۔ مجھے کوئی نہیں روک سکتا ۔۔۔۔۔hahahahaha
 ۔۔۔۔یہاں آپکے  23  دن گزر گئے ۔ بقایا 22 دن رہ گئے ۔۔۔۔
کیا مطلب ۔۔۔۔ بیگم احسن نے چیختے ہوۓ کہا ۔۔۔۔؟؟؟؟ 
اس گھر میں آپ 45 دن سے زیادہ نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔۔۔
اسی اثنا رمشہ کی کراہنے کی آواز سے اسکی طرف متوجہ ہوئیں ۔۔ رمشہ رمشہ میری طرف دیکھو ۔۔۔۔۔ساتھ ہی ڈیلر  کی جانب متوجہ ہوئیں جہاں ڈیلر  تھا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ یا اللّه یہ کیا ہو رہا ہے ۔
فون کی مسلسل بجتی گھنٹی سے احسن صاحب جھنجھلا اٹھے ۔۔اوہو بیگم کبھی تو پیچھا چھوڑ دیا کرو ۔ اتنی اہم میٹنگ میں ہوں بتایا بھی تھا ۔۔ انہوں نے بڑبڑاتے ہوئے   فون رسیو کئے بنا ہی موبائل آف کر دیا ۔
سر آپکے گھر سے فون آ رہا ہے ۔ اس سے پہلے مسج آیا تھا کہ ایمرجنسی ہے ۔ آپ بات کر لیں ۔ 
سیکٹری نے بتایا ۔۔
اوہو ایسا بھی کیا ہو گیا ۔۔۔۔
ہیلو ۔۔۔۔کیا ۔۔۔۔ایسا کیسے ہوا ۔۔۔احسن صاحب کے چہرے پر ہوائیاں سی اڑنے لگی ۔۔۔ فون بند کرتے ہوئے بولے ۔۔۔
میں معذرت چاہتا ہوں مجھے ابھی اسی وقت جانا ہوگا ۔میری بیٹی کی حالت بہت نازک ہے ۔ 
احسن صاحب نے میٹنگ میں شریک شرکا سے کہا ۔۔۔۔ پریشانی میں اپنے کاغذات سمیٹے اور سیکٹری سے جلد از جلد سیٹ بک کرانے کا کہہ کر میٹنگ کو اگلے وقت تک کیلئے کینسل کر دیا ۔۔۔ 

تین گھنٹے کا سفر  جیسے کئی دنوں  تک محیط ہو گیا ۔۔ وقت تھا جیسے تھم سا گیا ہو ۔۔اللّه اللّه کر سفر ختم ہوا ۔    گاڑی گھر کے گیٹ کے پاس رکی ۔۔ احسن صاحب تیزی سے گھر میں داخل ہوئے ۔۔رمشہ مستقل بے ہوش تھی ۔ ڈاکٹرز اسے ہوش میں لانے کی پوری کوشش میں تھے ۔۔۔ وه جب بھی ہوش میں آتی چلانے لگتی . . . 

احسن صاحب نے بیگم سے پورا ماجرا سنا اور بولے ۔۔۔ 
ہمارا گھر آسیب زدہ نہیں ہے ۔ یہ تو صرف ایک ڈرامہ تھا ۔ کیوں کہ اس گھر کا وارث اب کوئی نہیں ۔ ایک بھتیجا تھا رفاقت صاحب کا وه بھی جلد واپس امریکہ چلا جائے گا ۔ ڈیلر کے ساتھ مل کر اونے پونے داموں میں یہ گھر خرید چکا ہوں ۔۔۔ تمہیں ضرور کچھ غلط فہمی ہوئی ۔ میں خود بات کروں گا رمشہ بیٹی سے ۔۔۔  
 .  .  
اگر غلط فہمی ہوتی تو رمشہ چوبیس گھنٹے سے زیادہ بے ہوش نہ رہتی ۔۔اس نے ضرور کچھ ایسا دیکھا ہے ۔۔۔بیگم احسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
اور ہاں ڈیلر  بھی آیا تھا ۔ نجانے وه کیسے گھر میں گھس آیا اور سیدھا اوپر ٹیرس تک چلا آیا ۔۔۔ اس نے کہا کہ تم لوگوں کیلئے بہتر یہی ہے کہ بائیس دن کے اندر اندر گھر خالی کر دیں ۔ 
لو اس کے باپ کا راج ہے ۔ میں ابھی پوچھتا ہوں اس سے ،  گھر میں گھس کیسے آیا وه ۔۔۔۔ ۔۔ احسن صاحب آگ بگولہ ہو کر اٹھے اور تیزی سے باہر جانے کو لپکے تھے کہ ڈور بیل سنائی دی۔۔۔
احسن صاحب خود گیٹ  کھولنے گئے ۔  
گیٹ کھولتے ہی انکی آنکھیں  بے یقینی ، حیرت اور خوف سے باہر کو ابل  آئیں ۔  گیٹ سے باہر جو شخص نظر آیا وه ہو بہو  احسن صاحب ہی تھے ۔ وہی لباس کا رنگ وہی ہاتھ میں پکڑا ہوا موبائل وہی براون چشمہ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔  ک ک کو کون ۔۔۔۔۔۔ احسن صاحب فقرہ پورا کئے بغیر دھڑام زمین پر گر گئے 
یا اللّه خیر احسن صاحب کو کیا ہو گیا ۔۔۔بیگم احسن روتے ہوئے چلا رہی تھیں ۔۔ گیٹ کے پاس زمین پر  احسن صاحب بے ہوش  چت پڑے ہوے تھے کہ اچانک دینو چچا کا وہاں سے گزر ہوا ۔۔ ہمسایہ ہونے کے ناطے چاچا لپک کر  احسن صاحب کی طرف  بڑھے اور  نبض چیک کی ۔ساتھ ہی جیب سے فون نکالا فوری طور پر ایمبولینس بلوا لی اور بولے ۔۔۔شدید ہارٹ اٹیک آیا ہے ۔انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کرنا  ہوگا ۔۔۔
بیگم احسن مدد طلب نظروں سے دینو چاچا کو دیکھنے لگیں ۔۔۔ 
چاچا نے تسلی دی اور پوچھا ۔۔احسن بھائی کو کوئی پریشانی تھی کیا ۔۔۔،،؟؟؟؟ 
جی ہاں ۔۔۔وه ڈیلر جس نے یہ گھر دلایا تھا ۔۔۔آج ہمارے گھر گھس آیا اور دھمکی دی ۔۔گھر خالی کرنے کی ۔۔
دینو چاچا گھبرا گئے ۔۔انکے چہرے پر کئی رنگ  آئے گزر گئے اور بولے 
  میں آج اپ لوگوں سے اسی سلسلے میں ملنے والا تھا ۔۔۔۔ڈیلر جس نے آپکو یہ گھر دلایا اسکا کوئی وجود ہی نہیں ۔ نہ ہی اس کا کوئی آفس ۔۔۔۔بہرحال آپ کو کچھ وظایف کرنے ہوں گے ۔ باوضو رہنا ہوگا ۔۔۔۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں اپ بھائی صاحب  ۔۔بیگم احسن نے خوفزدہ ہو کر کہا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔اللّه رحم کرے ہم سب پر وه دل ہی دل میں بڑبڑائے ۔ 
میں کوشش کروں گا جلد واپس آ جاؤں ۔۔ میری واپسی تک آپ یا حی و یا قیوم کا ورد کرتی رہیں اور با وضو رہیں ۔۔ ۔۔۔۔
ایمبولینس کے پہنچتے ہی چاچا احسن صاحب کو لیکر ہسپتال پہنچ گئے ۔۔۔۔۔
ایمرجنسی وارڈ میں شفٹ کروانے کے بعد دینو چاچا بھی قریب پڑے بنچ پر بیٹھ گئے ۔ اور تمام معاملات پر غور کرنے لگے ۔۔ ڈاکٹر احسن صاحب کا بغور جائزہ لینے لگے ۔ اوربتایا کہ انہیں شدید صدمہ خوف یا پریشانی سے اٹیک آیا ہے ۔ آپ کوشش کریں انکے ہوش میں انے کے بعد کوئی  پریشان کن بات نہ کی جائے ۔۔ ویسے اب یہ خطرے سے باہر ہیں ۔۔۔۔ 
ڈاکٹر چک اپ کے بعد وارڈ سے نکل گیا جبکہ  دینو چاچا  کی نظریں  مستقل احسن صاحب کے چہرے پر مرکوز تھی کہ  ۔۔۔اچانک ۔۔۔۔۔۔ . 
حیرت و پریشانی سے چاچا کے منہ سے نکل آیا ۔۔۔
اففففف میرے اللّه ۔۔۔۔۔۔
چاچا بے چینی سے اٹھ کر تیزی سے احسن صاحب کے قریب آن کھڑے ہوئے انکی نظر احسن صاحب کی گردن پر جم گئی۔۔۔۔پھر دل کی جگہ جو تیزی تیزی سے ہل رہا تھا۔ 
دینو چاچا نے جلدی سے کسی کو فون ملایا اور بولے ۔۔۔  
ہیلو ۔۔۔۔ذیشان بیٹا ۔۔۔میں دینو۔ مجھے تمہاری مدد کی  اشد ضرورت ہے ۔ خدارا جلد پہنچو ۔۔۔احسن صاحب اور ان کی فیملی کی زندگی خطرے میں ہے۔ 
دوسری جانب سے تسلی بخش جواب پا کر دینو چاچا نے ہسپتال کا نام اور وارڈ کا بتایا ۔خود بے چینی سے ٹہلنے لگے ۔  جلد ہی ذیشان کو سامنے سے اتی ہوئے پایا ۔۔انہوں نے  اسے کچھ ضروری ہدایات دیں اور تیزی سے گھر کی جانب روانہ ہوئے۔ 
شوہر کو ہسپتال بھیج کر بیگم احسن واپس کمرے کی جانب بھاگی جہاں رمشہ بے سدھ پڑی ہوئی تھی ۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی انکی نظر ایک عبایا میں ملبوس عورت پر پڑی جو رمشا پر جھکی ہوئی تھی ۔ 
بیگم احسن  چلاتی  ہوئی آگے بڑھیں 
کون ہو تم ۔۔۔۔ یہاں کیا کر رہی ہو۔ 
عورت نے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا اور دیوار کے پار ہو گئی۔ بیگم احسن نے رمشا کو دیکھا جو خون میں لت پت تھی ۔ اسکا دل بے دردی سے نوچ لیا گیا تھا۔ 
بیگم احسن پر سکتہ طاری ہو گیا اور وہ بھی زمین پر گر گئی۔۔۔۔

 دینو چاچا ہسپتال سے نکل کر  سیدھے احسن صاحب کے گھر پہنچے ۔۔گھر کا گیٹ پہلے سے کھلا ہوا تھا ۔ تمام گھر چھان مارا ۔ بیگم احسن اور رمشہ کہیں نظر نہیں آئیں ۔۔اچانک دینو چاچا کے سامنے وہی بچہ آیا جو اکثر انہیں اپنے کچن میں نظر آتا تھا۔ بچے نے چاچا کی قمیض کا دامن پکڑا اور ایک کمرے کی جانب اشارہ کیا۔ چاچا نہ سمجھتے ہوئے اس کمرے کی جانب بڑھے   ۔ کمرے کے درمیان بیگم احسن اور رمشہ کی خون میں لت پت لاشیں دیکھنے کو ملیں۔ چاچا تیزی سے پلٹے ۔دیکھا یہاں  کسی بچے کا نام اور نشان بھی نہیں تھا ۔۔۔ 
چاچا نے پہلے پولیس اور پھر ذیشان کو اطلاع دی۔ خود گھر سے باہر ہے چینی سے ٹہلنے لگے ۔۔۔ 
 پولیس اطلاع ملتے ہی موقع واردات تک پہنچ گئی اور ساتھ ہی ذیشان یہ خبر لے آیا ،احسن صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے  ۔ چاچا دینو نے جھٹ سے کہا مجھے اس خبر کی امید تھی ۔ سب پولیس کی زیر نگرانی کمرے میں داخل  ہوئے۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر چاچا چکرا گئے کمرا صاف ستھرا تھا ، یہاں نہ کوئی لاش تھی اور نہ ہی  خون کے دھبے ۔ یہاں تک کہ ایک تنکا بھی دیکھنے کو نہیں تھا۔
  پولیس نے  نامعلوم افراد پر پرچہ درج کیااور گھر کو سیل کر دیا ۔۔۔سبکو سخت وارننگ دے دی گئی کہ اس گھر میں داخل ہونے کی اجازت کسی کو بھی نہیں۔۔۔۔۔ویسے بھی اہل محلہ خوف  کی دھاک بیٹھ گئی۔۔ سبھی نے  گھر کے قریب سے گزرنا بھی چھوڑ دیا 
ڈاکٹر نے تو یہی کہا  کہ مریض خطرے سے باہر ہے پھر ایسی کیا وجہ ہوگی کہ احسن صاحب کی فورا  موت ہوگئی ۔  جبکہ یہاں انکی بیگم اور بیٹی کو بھی قتل کر دیا گیا ۔۔۔کہیں احسن صاحب کابھی قتل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچا کو یہ سوچ کر جھرجھری  آ گئی ۔۔۔ انہوں نے ڈاکٹر کو فون ملایا اور پوچھا۔۔۔ڈاکٹر صاحب کیا آپ مجھے کچھ وقت دے سکتے ہیں ؟؟؟؟.  دراصل آپ نے یہ کہا تھا کہ احسن صاحب اب خطرے سے باہر ہیں ۔جبکہ اس کے باوجود یکدم  انکی موت ہوگئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جانب ڈاکٹر کا جواب پا کر چاچا  سکتے میں آ گئے۔  ڈاکٹر کے مطابق احسن صاحب کی موت دل کو نوچنے کی وجہ سے ہوئی۔ اِنکے سینے پر گہرے کھاؤ دیکھے گئے جبکہ وہ انتہائی نگہداشت میں تھے۔ وہاں باہر کا کوئی بندہ نہیں آ سکتا۔  
دینو چاچا کافی دیر کڑی سے کڑی ملانے کی کوشش میں جانے کب آنکھ لگ گئی اور نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ 
آنکھ لگتے ہی دینو چاچا نے  خواب میں رفاقت صاحب کو روتے ہوئے دیکھا  اور شکوہ کرتے ہوئے سنا ۔۔۔۔۔۔۔ دینو تم نے کیا کیا ابھی تک۔۔۔۔ میرے بچے بھوکے ہیں ۔۔۔۔کیا گردیش نے تمہیں کچھ نہیں بتایا ۔۔۔۔۔
چاچا اک جھٹکے سے اٹھ بیٹھے ۔۔دل ہی دل میں گرديش کو سوچنے   لگے  ۔  جنگلات میں  ڈیوٹی کے دوران کئی مرتبہ گردیش  پرسرار طریقے سے ان کے سامنے آ جاتا اور ہنس کر کہتا ۔۔" دینو کیا عمل کرتے ہو کہ ہر مرتبہ بچ جاتے ہو    ۔  دینو چاچا مسکرا کر یہی جواب دیتے ۔۔۔۔۔مارنے والے سے ڈرتا نہیں کیوں کہ بچانے والے سے یاری پکی  ہے۔۔۔۔۔۔
گردیئش مسکرا کر کہتا۔۔۔۔یاری  ہے تو جنگلات میں رہ رہے ہو ۔۔۔ورنہ یہاں رہنا مشکل ہے ۔۔۔کبھی ضرورت پڑی تو چلے انا ۔۔۔ہماری یاری بھی آزما لینا ۔۔ ۔۔۔
گردِش کا ٹھکانہ پتا نہ ہی یہ معلوم کہ وہ انسان ہے یا جن زاد۔۔ 
 

  اسی سوچ میں ہی تھے کہ کچن سے عجیب و غریب آوازیں سنائی دی۔ چاچا غیر
ارادی طور پر کچن کی طرف بھاگے جہاں وہی سیاہ عبایا میں ملبوس عورت کچن کی الماریاں کھول کر کچھ تلاش کر رہی تھی ۔ چاچا کو دیکھتے ہی چلانے لگی ۔ اس کے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھی۔ 
اس سے پہلے کہ چاچا کچھ پوچھتی  وہ  غراتے ہوئے دیوار سے پار ہو گئی۔۔ 
مطلب یہاں کچھ کھانے کی تلاش میں آئی تھی۔ افسوس میں کئی دن سے الجھا ہوا تھا کھانے پینے کا سامان خرید نہ سکا ۔۔ 
یہ سوچ کر چاچا خریداری کے سلسلے میں باہر نکلے ہی تھے کہ رفاقت صاحب کے گھر کے باہر بہت بڑا بینر دیکھا جس پر لکھا تھا ۔۔۔۔۔ہاؤس فور سیل۔۔۔۔۔
ارے ارے یہ کیا۔ یہ گھر سیل کیا تھا پولیس نے ۔۔۔یہ کس نے sale کا بینر لگا دیا۔۔۔۔۔۔ گیٹ کے باہر کھڑے ایک آدمی سے پوچھا جو گیٹ کا تالا کھول رہا تھا۔۔۔ 
سنیں بھائی صاحب اس گھر کی چابی تو پولیس کے پاس تھی یا ذیشان کے پاس آپ کون ہیں اور کس کی اجازت سے گھر بیچ  رہے ہیں۔  
آدمی نے چاچا کو سر سے پیر تک گھور کر دیکھا اور کہا ۔ 
کیا آپکو نہیں معلوم ذیشان کی  موت کا۔۔۔
کیا ااء۔۔۔۔۔۔۔۔ذیشان کی موت ہو گئی۔ کب کیسے ۔۔۔؟؟؟؟ 
دو سال پہلے ۔۔۔۔۔۔ 
پرسرار آدمی یہ کہہ کر گھر کے اندر داخل ہو گیا اور چاچا  بت بنے  کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔   
ذیشان تو کل احسن صاحب کے پاس تھا ۔۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ یا میں پاگل ہو چکا ہوں یا مجھے پاگل بنایا جا رہا ہے ۔۔  
 اچانک چاچا کو خیال آیا ۔۔۔۔۔۔مجھے گردِئیش سے ملنا ہو گا ۔۔ ہاں مجھے جانا ہو گا ۔۔ لیکن اس سے پہلے مجھے کچن میں کچھ کھانے کو رکھنا ہے ۔ جانے کیوں مجھے لگتا ھے رفاقت صاحب کے بچے بھوکے ہیں اس عورت کا تعلق ضرور رفاقت صاحب سے ہو گا ۔ چاچا نے کچھ ضروری کھانے پینے کا  سامان کچن میں رکھا اور واپس جنگلات کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔۔ 
جنگلات اِنکے گھر سے دو گھنٹے کی دوری پر تھے ۔بس سے اترنے کے بعد ایک آدھ گھنٹہ پیدل کا رستہ بھی تھا ۔۔۔ لیکن چاچا کو پیدل چلتے  ہوئے کئی گھنٹے گزر گئے۔ 
صبح سے شام ہو گئی سفر ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہا تھا۔۔۔
کہیں میں رستہ تو نہیں بھول گیا ۔۔چاچا ایک جگہ کھڑے ہو گئے اور دائیں بائیں دیکھنے لگے ۔۔۔۔ارے یہ کون سی جگہ ہے ۔ تیس سال یہاں ڈیوٹی دی مگر یہ جگہ اس سے پہلے دیکھی نہیں ۔۔۔۔۔
دور کونے میں ایک آدمی نظر آیا  جسکا چہرہ دوسری جانب تھا ، ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کسی سے تکرار کر رہا ہو۔۔ چاچا اللہ ہو کا ورد کرتے ہوئے  تیز تیز قدم اٹھاتے اس تک پہنچنے۔اور بولے ۔۔۔۔
بھائی صاحب میں شاید رستہ بھول گیا ہوں۔ کیا آپ میری رہنمائی فرمائیں گے ۔۔۔مجھے جنگلات کے مین آفس تک پہنچنا ہے ۔ 
آدمی نے بات سنی اور چہرہ دیکھائے بغیر بولا ۔۔۔۔میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا دینو ۔۔۔۔اگر بھلائی چاہتے ہو تو نکل جاؤ یہاں سے۔ تم اس معاملے سے دور رہو ۔
 
لیکن تم ہو کون ۔۔۔مجھے تمہاری آواز مانوس سے لگ رہی ہے ۔ مجھے چہرہ دیکھاو اپنا ۔۔ چاچا نے دلیری سے بات کی۔۔۔ اور کون سے معاملے کی بات کر رہے ہو۔۔۔ 
آدمی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا ۔۔ اب سمجھے کوں سا معاملہ ۔۔۔۔۔۔
چاچا اسکا چہرہ دیکھ کر سخت گھبرا گئے اور دو قدم پیچھے ہٹے بیہوش ہو کر دھڑام زمین پر گر گئے۔۔۔۔۔
اھل محلہ میں خوف و ہراس پھیل رہا تھا۔ ہاؤس فور سیل کا بینر دیکھ کر اہل محلہ نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس کی بھاری نفری فوری طور پر پہنچ گئی اور گھر کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے لیا۔ اس گھر میں کئی لوگوں کا قتل ہو چکا تھا اور ابھی تک لاشیں برآمد نہیں ہو سکیں ۔۔۔ 
مختلف لوگوں کی مختلف رائے۔۔ کسی کو  جن بھوتوں کا اثر لگتا اور کوئی  اس گھر کو کریمنل گینگ کا ٹھکانہ سمجھتا ۔۔۔ 
دن کی روشنی میں پولیس نےپورے گھر کی تلاشی لی ۔۔گھر صاف ستھرا تھا ۔ تمام کمرے صاف ھوا دار۔ کسی قسم کا کوئی سراغ نہ مل سکا ۔ سب انسپکٹر نوید احمد  ساتھی عملے  کے ساتھ گھر کا جائزہ لیتے ہوئے بیرونی حصے کی طرف مڑ گئے۔ اوپر جاتے ہوئے زینے کو دیکھ کر کچھ اندازہ لگانے کی کوشش میں تھے کہ پیچھے کسی کی آہٹ  محسوس کی ۔۔ انسپکٹر نوید نے تیزی سے پیچھے مڑ کر دیکھا کسی کو دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ انسپکٹر تیزی سے دروازہ کھولنے کو تھا کہ يكایک  دروازہ ہی غائب ہو گیا ۔اس نے دیوار کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔ لیکن دروازے کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔۔ مطلب یہاں کوئی ہے ۔ جن بھوت ہوں یا کوئی گینگ ھے۔پر کچھ ہے جو غلط کر رہا ہے۔ انسپکٹر نوید نے رپورٹ تک نہ کی
دینو چاچا کو جب ہوش آیا رات کا دوسرا پہر تھا ۔ ھوا میں خاصی خنکی محسوس ہوئی ۔۔ایسی رات تو پورے تیس سال میں بھی نہیں دیکھی تھی ۔۔ گھپ اندھیرا قریب ہی کسی بہتے جھرنے کی آواز  سنائی دی۔۔۔ چاچا کافی دیر گم صم پڑے رہے اور بیہوش ہونے کی وجہ ڈھونڈھتے رہے ۔ اچانک انہیں خیال آیا وہ احسن صاحب کو زندہ دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے تھے۔  چاچا اندازہ لگانے کی کوشش میں تھے کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ انہیں کسی مرد کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ چاچا نے ہمت کی اور آواز کی سمت چلنا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے چاچا کے قدم آواز کے قریب جاتے رہے۔ چاچا کا ورد اللہ ہو اللہ اکبر تیز اور آواز اونچی ہونے لگی ۔۔۔
چاچا نے دور آگ کا بہت بڑا الاؤ دیکھا ۔۔وہ حیران رہ گئے۔ جنگل میں آگ ۔۔۔۔ ساتھ ہی انہیں آواز سنائی دی ۔۔ 
آ گئے دینو ۔۔۔۔ یہ گردیش کی ہی آواز تھی ۔۔۔گردِیش آگ کے الاؤ کے وسط میں کھڑا تھا ۔ اسکا قد الاؤ سے کہیں زیادہ اونچا تھا ۔۔۔ 
تم ۔۔۔۔۔تم گردیش چاچا نے خوف سے ہکلاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔
ہاں دینو میں جن زاد ہوں ۔۔۔ ڈرو نہیں میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ بہت مرتبہ  کسی کی خواہش پر تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کی۔ لیکن تم پر کچھ اثر نہ ہوتا  ۔۔۔۔۔
چاچا  بے یقینی سے اسے دیکھتے رہے۔۔ 
اس نے بتایا ۔۔    میرے تجسس نے تمہیں پڑھنا شروع کر  دیا۔ میرے علم میں یہ آیا برسوں پہلے تم اپنی نو بیاہتا بیوی کے ساتھ ٹرین کی سفر کے دوران ، رحم کھا کر ایک زخمی بلی کی مرہم پٹی کی تھی ۔۔بے دھیانی میں بلی کا پنجہ تمہاری بیوی کی کلائی میں پیوست ہوگیا اور وہ چیختی چلاتی ہلاک ہو گئی۔ ۔ ۔۔
تم سمجھ نہیں پائے جبکہ وہ اندر سے جل چکی تھی۔ وہ زخمی بلی ایک جن زادی تھی  ۔ اسے تمہاری بیوی کی موت کا بےحد صدمہ پہنچا تھا ۔اس نے تمہاری کمر پر ایک نشان داغ دیا ۔اب کوئی آسیب جن تم پر حملہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔   یہی وجہ ہے میرے دوست کہ اب تک  تم جنگلات میں اکیلے ڈیوٹی دیتے رہے۔۔۔
اور رفاقت صاحب کو کیسے جانتے ہو۔۔ دینو چاچا  نے پوچھا ۔۔
ہاں ہم اس متعلق بات کرتے ہیں۔ گردیش نے کہا۔۔۔
جب رفاقت نے اپنے گھر کی مرمتِیں کروائیں ۔۔اس نے گھر  کا بیرونی حصہ گرا دیا ۔۔اس حصے میں ہمارے کنبے کے افراد رہائیش پزیر تھے ۔۔۔ وہ بے گھر ہو چکے تھے۔ کنبے کے سربراہ جندر جن  کی بیوی اس دوران شدید زخمی ہوئی اور بعد میں مر گئی۔۔۔
جندر جن مسلمان نہیں ہے ۔ اس نے بیوی کا بدلہ لینے کیلئے اس گھر کے تمام افراد کو ہلاک کردیا ۔ اسکا غُصہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ وہ گھر براۓ فروخت لگا کر انے والے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔   ۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ عبایا والی لڑکی کون ہے  ؟؟؟؟؟ 
چاچا نے پوچھا۔  

 گردِیش نے وضاحت سے بتایا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔   یہی صدمہ رفاقت کو ہے کہ وہ لڑکی رفاقت کی بھتیجی اور  بہو ہے  ۔ اسکا ایک بیٹا  بھی ہے جو رفاقت کا پوتا ہے یہ دونوں جندر کی قید میں ہیں ۔ یہ دونوں جب بھوک سے نڈھال ہو جاتے ہیں ۔کھانے کی تلاش میں باہر نکل آتے ہیں ۔ تم نہ صرف  انکو جندر کی قید سے رہائی دلوا سکتے ہو۔  بلکہ باقی لوگوں کی جانوں کو بچانے میں مدد کر سکتے ہو۔۔جندر بہت طاقت ور جن ہے اس نے مجھے اس جنگل تک محدود  کر دیا ۔ رفاقت کے مجھ پر احسان تھے میں اس کی مدد صرف جندر کی وجہ سے نہیں کر پایا۔ ۔ اسکی روح  ترپ رہی ہے  ۔اسکی بہو اور پوتا سخت مصیبت میں ہیں۔  انکی مدد کرو اور جندر کی قید سے رہائی دلواو۔۔   
ٹھیک ہے ۔۔۔۔لیکن میں کیا کر سکتا ہوں۔ میں اکیلا ہوں ۔۔ کیا پولیس کی مدد لی جا سکتی ہے ۔ چاچا نے پوچھا ۔۔۔۔
ہر گز نہیں ۔۔ دینو۔۔  یہ کام تم اکیلے ہی کرو گے اس اعتماد کے ساتھ کہ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔لیکن وہ تمہارے ہاتھ اتنی آسانی سے ائے گا بھی نہیں ۔ وہ تمہیں تکالیف پہنچائے گا۔ بس اب یہ تمہارا کام ہے کیسے اسے قابو کر  سکتے ہو۔۔۔ ۔۔۔۔
ایک پولیس انسپکٹر کو جندر نے اپنے جال میں پھانس لیا , اس سے پہلے اس کو موت کے گھاٹ اتار دے ۔ تم اس کی مدد کرو ۔گردیش نے بتایا    ۔۔
چاچا حیران پریشان جیسے اپنے حواس کھو بیٹھے تھے۔ گردِیش کی باتیں سنکر واپس پلٹے اور گھر کا رخ کیا۔ انکی سمجھ میں کچھ نہیں آیا وہ کیسے اس لڑکی کو آزاد کروائیں۔ 
واپسی پر وہی مرد نظر آیا کو بري طرح کراہ رہا تھا۔۔۔چاچا اسکی مدد کو بڑھے ، اس کے قریب پہنچے ہی تھے کہ بہت گہرے گڑھے میں جاگرے۔ آدمی قہقہے لگا کر ہنسنے لگا اور کہا۔۔۔
یہاں سے نکل پاؤ گے تو تب مجھے مار سکو گے نا۔ اب یہیں پڑے رہو ۔۔۔  چاچا جندر جن کے دھوکے میں پھنس کر رہ گئے۔۔۔
یہ بہت گہرا گڑھا تھا۔  چاچا جتنا زور لگاتے اوپر انے کیلئے ۔ گڑھا اتنا ہی گہرا ہوتا جاتا    ۔۔۔
انہوں نے صدق دل سے اللہ کو پکارا اور مدد چاہی ۔۔
جذبہ نیک ہو اور پکارا جائےاللہ کو ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ سن لے اور مدد کو نہ پہنچے ۔۔۔چاچا یا حی و یا قیوم کا ورد اونچی آواز میں کرنے لگے۔  ہوا کے تیز جھونکے  سے درخت کی مضبوط ٹہنی گڑھے میں جا گری ۔۔۔چاند پوری روشنی کے ساتھ  آسمان پر جلوہ گر تھا ۔ چاچا نے چھڑی کی مدد سے اور چاند کی روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیوار میں رستہ بناتے اور قدم جماتے اوپر پہنچے ۔۔۔۔اس پورے عمل کو شائد پوری رات گزر گئی۔ یا رات اتنی طویل  تھی کہ کٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔۔
چاچا جیسے ہی گڑھے سے باہر ائے زمین زور زور سے ہلنا شروع ہو گئی۔  
ہممم مجھے ڈرنا نہیں چاہیے ۔۔۔ہمت سے کام لو دینو ۔۔۔چاچا نے خود کو تسلی دی۔ تیز تیز قدم اٹھاتے جنگل سے باہر تو نکل آئے۔ مگر یہ وقت بس کے انے کا نہیں تھا ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں چاچا نے دور سے بس کو آتے دیکھ لیا ۔ وہ تیزی سے سڑک کے کنارے جا کھڑے ہوئے اور تقریبآ چلتی بس میں سوار ہو گئے۔ ہانپتے کانپتے سیٹ پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں چاچا کو محسوس ہوا بس بالکل خالی ہے یہاں تک کہ اس میں ڈرائیور بھی موجود  نہیں تھا ۔۔۔۔خوف کی اک لہر پورے جسم میں دوڑ گئی۔۔۔  بس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ سیٹ سے اٹھنا محال ہو رہا تھا۔  
نجانے اب کس چکر  میں پھنسا دے گا جندر ۔۔ یہ بس کہاں اتارے گی ۔۔چاچا نے دل میں ٹھان لی وہ بس سے کود جائیں گے چاہے کچھ بھی ہو ۔۔۔لیکن اس مرتبہ جندر کے جال میں نہیں پھنسیں گے ۔۔۔ابھی چاچا یہ سوچ رہے تھے کہ بس اِنکے علاقے میں آ کر رک گئی۔۔دو گھنٹے کا سفر چند لمحوں میں مکمل ہوا۔ یہ معمہ چاچا کی سمجھ سے بالا تر ہو گیا۔۔۔۔
دینو چاچا تیز تیز قدم اٹھاتے گھر کی طرف چل پڑے۔ گھر پہنچ کر چاچا نے گہرا سانس لیا۔ کچن سے اٹھنے والی کھانے کی خوش بو سے   چاچا کو خیال آیا وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے بھوکے ہیں۔ یہ سوچ کر انہوں نے کچن کا رخ کیا یہ دیکھ کے حیران رہ گئے کچن میں بے شمار طرح طرح کے کھانے بنے ہوئے تھے۔ چاچا کا جی چاہا کچھ کھانے کو ۔ مگر انہوں نے فورا ہاتھ روک لیے ۔وہ کافی محتاط ہو چکے تھے۔اور جلد از جلد رفاقت صاحب کی بہو اور پوتے کو رہا کروانا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اہل محلہ کو پوری روداد سنائی۔سب نے بہو اور پوتے کیلئے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اور بھر پور تعاون کا  یقین دلایا۔ 
میں چاہتا ہوں جب تک میں اس گھر سے واپس نہیں نکل آتا۔ آپ لوگ وقفے وقفے سے ازان کا اہتمام کرتے رہیں ۔کوشش یہی کریں ازان کی  آواز گھر کے اندر تک سنائی دے۔ 
چاچا کچھ ضروری سامان لینے بازار آئے۔ عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا جب چاچا ،  رفاقت صاحب کے گھر داخل ہوئے۔۔ گھر میں مکمل خاموشی اور ہو کا عالم تھا۔۔ 
چاچا دل ہی دل میں ورد کرتے رہے۔ پورا گھر چھان لینے کے بعد کسی قسم کا کوئی سراغ نہ مل سکا انہوں نے موبائل فون پر سورہ مزمل کی تلاوت اونچی آواز میں لگا کر خود گھر کی تمام دیواروں پر دم کیے پانی کا چھڑکاؤ کرنے لگے ۔۔۔چاچا جیسے جیسے چھڑکاؤ کرتے جاتے گھر سے نا قابل برداشت  بدبو پھیلنے لگی ۔۔۔۔ پورے گھر پر چھڑکاؤ کے بعد عجیب سا بھونچال آیا ۔۔۔  بے شمار جندر جن قطار میں کھڑے 
 نظر انے لگے جنہوں نے  چاچا کو گھیرے میں لے لیا۔ 
لو دینو میں آ گیا ۔۔پکڑ لو مجھے ۔ دینو کو دائرے کی صورت میں گھیرے میں لیتے ہوئے جندر قہقہے لگانے لگا ۔۔اتنے بےشمار جندر میں جانے کون اصلی جندر تھا۔ چچا نے دل ہی دل میں اللہ کو یاد کیا تھیلے میں سے  دم کی ہوئی خاک نکالی اور دائرے کی صورت میں تمام جندر کی اشکال پر پھینکی شروع کر دی۔ منہ ہی منہ میں آیات کا ورد شروع کر دیا۔۔۔اھل محلہ کی ازان کی  آوازیں  اسپیکر سے سنائی دینے لگیں ۔۔جندر جن کے تمام  ہمشکل ایک ایک کرکے بھسم ہو کر گرنے لگے ۔۔۔اتنے میں جندر نے کالے عبایا میں ملبوس لڑکی کو اپنی گرفت میں جکڑ لیا اور چاچا کو آیات پڑھنے سے منع کرنے لگا ۔۔ چاچا کا جوش بڑھتا گیا۔۔دم کی ہوئی خاک برابر پھینکتے رہے ۔۔ 
آخری مٹھی خاک کی چاچا نے زینے کے قریب پھینکی جس سے کمرے کا دروازہ ٹوٹ کر کھل گیا۔ دروازہ کھلنے سے پورے گھر میں انتہائی بدبو پھیل گئی جو اہستہ اہستہ پورے محلے میں پھیل گئی ۔گھر سے باہر اھل محلہ کی ورد کی آوازیں کسی طوفان کی طرح گھر میں داخل ہونے لگیں ۔۔ يكا یک تمام خاک اکھٹی ہو کر جندر جن کے سر پر گرنا شروع ہو گئی۔۔۔دینو چاچا کی آیات نے خاک پر آگ کا کام کیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے جندر جن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔
جندر جن کے بھسم ہوتے ہی بدبو تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئی اہل محلہ اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ کمرے میں بے شمار لاشوں کے ڈھانچے دیکھائی دیے ۔ رفاقت صاحب کی بہو اور پوتا زینے کے قریب بے ہوش پائے گئے ۔۔ 
اھل محلہ نے تمام ہلاک شدگان کی نماز جنازہ ادا کی اور انہیں سپرد خاک کیا۔۔۔۔گھر شیطانی قوتوں سے پک ہو چکا تھا۔ 
رفاقت صاحب کی بہو نے فیصلہ کیا اس گھر کو بیچ کر اپنے آبائی علاقے میں رہنا پسند کریں گی جہاں اِنکے خاندان کے  باقی افراد رہائیش پزیر ہیں۔  ۔۔۔۔
اگلے ہی دن۔ گھر کے باہر دینو چاچا نے خود بورڈ لگا دیا ۔۔۔ 
ہاؤس فور سیل۔۔۔

Post a Comment

0 Comments